مہنگائی اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی
اسلام آباد (اشفاق مغل) شاہانہ حکومتی اخراجات کے باعث پاکستان کا بجٹ خسارہ 13کھرب 69ارب روپے کی تاریخی بلندی پر پہنچ گیا ہے جس کے باعث ملکی معیشت کو دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی اورمہنگائی میںاضافے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے
وزارت خزانہ کی جانب سے مالی سال2011-12 کے حوالے سے مالیاتی کارکردگی پر مبنی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت کی آمدنی25کھرب66ارب،51کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی جس کا جی ڈی پی میں تناسب 12.4فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس دوران حکومت اخراجات بڑھ کر 39کھرب36ارب22کروڑ روپے ریکارڈ کئے گئے ہیں جو جی ڈی پی 19.1فیصد ریکارڈ کئے گئے تھے اس طرح بجٹ خسارہ 13کھرب69ارب70کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیاہے جس کا جی ڈی پی میں تناسب6.6فیصد ریکارڈ کیا گیاہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران محصولات کی وصولیوں کی مد میں 20کھرب52ارب88کروڑ روپے وصول کئے گئے جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 1952ارب کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 1945ارب روپے کی وصولیاں کیں جبکہ غیر محصولاتی آمدنی کی مد میں حکومت کو513ارب63کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کا حصہ465ارب روپے اورچاروں صوبائی حکومتوں کا حصہ محض48ارب 2کروڑ80لاکھ روپے ریکارڈ کیا گیا
اس دوران حکومتی اخراجات3936ارب22کروڑ روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ، اس دوران جاری اخراجات کی مد میں 3122ارب50کروڑ روپے خرچ کئے گئے جس میں سے حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے 889ارب روپے دفاع کے لئے 507ارب روپے سے زائد خرچ کئے تھے۔ اس دوران حکومت ترقیاتی اخراجات اور نیٹ لینڈنگ کی مد میں 743ارب روپے خرچ کئے گئے اس میں سے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لئے 289ارب روپے اور صوبائی حکومتی ترقیاتی پروگرام کے لئے 375ارب43کروڑ روپے خرچ کئے جبکہ متفرق ترقیاتی اخراجات کی مد میں67ارب11کروڑ روپے خرچ کئے
اس طرح بجٹ خسارہ 1369ارب70کروڑ روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ جس کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے مقامی اور بیرونی ذرائع سے قرضے حاصل کئے۔ اس دوران حکومت نے بیرونی ذرائع سے 128ارب65کروڑ روپے کے قرضے حاصل کئے جبکہ اس دوران مقامی ذرائع سے بنکوں سے 711ارب67کروڑ روپے اور نان بنکنگ سیکٹر سے 529ارب38کروڑ روپے کا قرضہ حاصل کیا
وزارت خزانہ کے مطابق صوبائی حکومتوں کے مالیاتی آپریشن میں مجموعی محصولات 1333ارب95کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیا جس میں این ایف سی کے تحت وفاقی حکومت نے صوبوں کو1089ارب87کروڑ روپے منتقل کئے جبکہ صوبوں نے ٹیکس کی مد میں 107ارب روپے اور نان ٹیکس کی مد میں48ارب روپے کی وصولیاں کیں۔ اس میں سے پنجاب حکومت کی اخراجات602ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جبکہ اس کی آمدنی593 ارب 89 کروڑ روپے رہی جس میں وفاق نے این ایف سی کے تحت 518ارب 33کروڑ روپے منتقل کئے جبکہ پنجاب حکومت نے محض 42ارب 14کر وڑ روپے کے کے ٹیکس وصولیاں کیں جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کی مد میں25 ارب 79کروڑ روپے حاصل کئے۔ سندھ کی مجموعی آمدنی 383ارب 78کروڑ روپے رہی جس میں وفاق نے این ایف سی کی مد میں 285ارب روپے دئےے جبکہ ٹیکسوں کی مد میں صوبائی حکومت نے 60ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی میں 12ارب روپے وصول کئے۔ جبکہ اس کے اخراجات412ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔صوبہ خیبر پختونخوا کے حکومتی اخراجات225ارب80-کروڑ روپے ریکارڈ کئے گئے ، اس دوران اس کی مجموعی آمدنی 222ارب 6کروڑ روپے رہی جس میں وفاق نے این ایف سی کی مد میں 178ارب روپے دئےے جبکہ ٹیکسوں کی مد میں صوبائی حکومت نے 3ارب67کروڑ روپے اور نان ٹیکس آمدنی میں 12ارب روپے وصول کئے۔ جبکہ اس کے اخراجات412ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔صوبہ بلوچستان کے حکومتی اخراجات 115ارب13کروڑ روپے کی سطح پر پہنچ گئے اس دوران اس کی مجموعی آمدنی 134ارب 21کروڑ روپے رہی جس میں وفاق نے این ایف سی کی مد میں 107ارب روپے دئےے جبکہ ٹیکسوں کی مد میں صوبائی حکومت نے 60ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی میں 1ارب اڑھائی کروڑروپے وصول کئے۔
واضح رہے کہ بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور بیرونی ذرائع سے مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث حکومت مقامی ذرائع بالخصوص سٹیٹ بنک سے کرنسی نوٹ چھپوا کر اخراجات پورے کررہی ہے کس کے باعث دیگر غیر ملک کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تسلسل کے ساتھ کمی ہو رہی ہے جس کے باعث ملک میں مہنگائی کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا، حکومت اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کمرشل بنکوں سے قرضے کے حصول کی پالیسیاں بھی ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتی کر رہی ہے۔
کمرشل بنکوں سے بڑھتے ہوئے حکومتی قرضوں کے باعث نہ صرف بنکوں کا شرح سود میں کمی نہیں ہو رہی بلکہ نجی شعبے کے لئے بنکوں سے قرضے کا حصول بھی مشکل ہو رہا ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ کمی ہو رہی اور ملک کے پیداواری شعبے کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے جو مہنگائی کی ایک اہم وجہ بن رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment